Examples

اردو شاعری میں غالب کی استعمال کردہ بحور

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

رمل مثمن محذوف

نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بتنی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

رمل مثمن محذوف

نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بتنی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن

ہزج مثمن اشتر

ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

ہزج مثمن سالم

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

مفعول مفاعلن فعولن

ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف

کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد
مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے

فعولن فعولن فعولن فعولن

متقارب مثمن سالم

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعِلن

رمل مثمن مخبون محذوف

بوئے گل، نالۂ دل دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعِلن

مجتث مثمن مخبون محذوف

نظر لگے نہ کہیں اس کے زورِ بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

فعلات فاعلاتن فعلات فاعلاتن

رمل مثمن مشکول

کوئی میرے دل سے پوچھے، ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن

مضارع مثمن اخرب

میں اور بزمِ مے سے، یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا

فاعلاتن مفاعلن فعِلن

خفیف مسدس سالم مخبون محذوف

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

فاعلاتن فعِلاتن فعِلن

رمل مسدس سالم مخبون محذوف

ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی

مفتعلن فاعلات مفتعلن فع

منسرح مثمن مطوی منحور

دیتے ہیں جنت حیاتِ دہر کے بدلے
نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے

مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن

رجز مثمن مطوی مخبون

دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں

مفاعیلن مفاعیلن فعولن

ہزج مسدس محذوف

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

رمل مسدس محذوف

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے

مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلاتن

مجتث مثمن مخبون

خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم اگے